رسائی کے لنکس

فلسطینی بچوں پر جنگ کے بھیانک  اثرات نے ہمیں دہلا دیا: بین الاقوامی ڈاکٹر


ڈاکٹر تانیا
ڈاکٹر تانیا
  • ایک ننھا بچہ جس کی حملے میں کھوپڑی ٹوٹ گئی تھی، دماغی چوٹ سے مر گیا۔ اس کی شیر خوار کزن کے چہرے کا کچھ حصہ اسی حملے میں اڑ گیا تھا اور وہ زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔
  • جب ہم مریضوں کو ڈھونڈتے ہیں تو وہ کسی کمرے میں نہیں ہوتے۔ "وہ راہداریوں میں کسی بستر پر، گدے پر یا فرش پر کسی کمبل پر ہوتے ہیں۔"ڈاکٹر
  • الاقصیٰ شہداء ہسپتال میں کام کرنے والے اور دورہ کرنے والی بین الاقوامی ڈاکٹروں کی ایسو سی ایٹڈ پرہیس سے گفتگو۔

ایک بچہ جسے نہیں معلوم تھا کہ اس کے والدین اسرائیلی حملے میں مارے گئےہیں، انہیں بلانے کے لیے چیخ رہا تھا۔ اس کے قریب اس کی بہن موجود تھی، لیکن وہ اسے نہیں پہچان سکا کیونکہ اس کا تقریباً پورا جسم جل چکا تھا۔ ایک چھوٹا بچہ جس کی اسی اسرائیلی حملے میں کھوپڑی ٹوٹ گئی تھی،دماغی چوٹ سے مر گیا۔ اس کی ایک شیر خوار کزن، جس کے چہرے کا کچھ حصہ اس حملے میں اڑ گیا تھا، اب بھی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔۔

دیر البلاح قصبے کے الاقصیٰ شہداء ہسپتال میں اردن سے تعلق رکھنے والی بچوں کی انتہائی نگہداشت کی ڈاکٹر تانیا حاج حسن نے رات کے 10 گھنٹے کی شفٹ کے بعد، ایسوسی ایٹڈ پریس کو بچوں کو درپیش ان خوفناک ہلاکتوں کی تفصیلات فراہم کیں۔

دورہ کرنے والی ٹیم میں شامل اردن کے ایک طبی کارکن مصطفیٰ ابو قاسم نے کہا کہ جب ہم مریضوں کو ڈھونڈتے ہیں تو وہاں کمرے نہیں ہوتے۔ "وہ راہداریوں میں کسی بستر پر، گدے پر یا فرش پر کسی کمبل پر پڑے ہوتے ہیں۔"

وسطی غزہ کے ایک اسپتال کا دورہ کرنے والی ڈاکٹروں کی ایک بین الاقوامی ٹیم بدترین حالات کے لیے تیار تھی۔ لیکن اس کے حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ نے جو بھیانک اثر فلسطینی بچوں پر ڈالا ہے، اس نے انہیں دہلا کر رکھ دیا۔

تانیا حسن نے بتایا،"میں یہاں اپنا زیادہ تر وقت بچوں کی زندگی بچانے میں گزارتی ہوں،" اس سے آپ غزہ کی پٹی کے ہر دوسرے اسپتال کے بارے میں کیا اندازہ لگا سکتے ہیں؟"

ڈاکٹرتانیا، جو غزہ میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں اور جنگ کے تباہ کن اثرات کے بارے میں باقاعدگی سے کھل کر بات کرتی ہیں، اس ٹیم میں شامل تھیں جس نے حال ہی میں وہاں دو ہفتے کا کام ختم کیا ہے۔

اسرائیلی بمباری میں ہلاک اور زخمیوں کی ایک تصویر الاقصیٰ اسپتال کے قریب فوٹو اےایف پی 20 مارچ 2024
اسرائیلی بمباری میں ہلاک اور زخمیوں کی ایک تصویر الاقصیٰ اسپتال کے قریب فوٹو اےایف پی 20 مارچ 2024

تقریباً چھ ماہ کی جنگ کے بعد غزہ کی صحت کا شعبہ تباہ ہو چکا ہے۔ غزہ کے 36 اسپتالوں میں سے تقریباً ایک درجن صرف جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔ باقی یا تو بند ہو چکے ہیں یا ایندھن اور ادویات ختم ہوجانے کے بعد بمشکل کام کر رہے ہیں۔ ان کا اسرائیلی فوجیوں نے گھیراؤ کیا ہے اور چھاپہ مارا، یا انہیں لڑائی میں نقصان پہنچا۔

اس کے نتیجے میں الاقصیٰ شہداء جیسے اسپتالوں کو محدود سامان اور عملے کے ساتھ مریضوں کی بہت بڑی تعداد کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ اس کے انتہائی نگہداشت یونٹ کے زیادہ تر بستروں پر زخمی بچے موجود ہیں جن میں پٹیوں میں لپٹے اور آکسیجن ماسک پہنے نوزائیدہ بچے شامل ہیں۔

الاقصیٰ اسپتال میں کام کرنے والے بین الاقوامی ڈاکٹروں کی ایک مختلف ٹیم جنوری میں قریبی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری تھی۔ لیکن قریب ہی اسرائیل کے حملوں میں حالیہ اضافے کی وجہ سے، تانیہ حاج حسن اور ان کے ساتھی کارکن ہسپتال میں ہی رکے ہوئے ہیں۔

اردن کی ڈاکٹر تانیہ الاقصیٰ شہدا اسپتال میں زخمی بچوں کا علاج کر رہی ہیں، فوٹو اے پی 16 مارچ 2024
اردن کی ڈاکٹر تانیہ الاقصیٰ شہدا اسپتال میں زخمی بچوں کا علاج کر رہی ہیں، فوٹو اے پی 16 مارچ 2024

ڈاکٹر تانیا اور دوسرے ڈاکٹروں نے غزہ میں بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی اور فلسطنیوں کے امدادی ادارے میڈیکل ایڈ کے لیے ہسپتال کے ایک دورے کا بندوبست کیا ریسکیو کمیٹی کی ٹیم کے لیڈر اروند داس نے کہا اس دورے میں انہوں نے ہسپتال کے تکلیف دہ حالات اور اس پر مریضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو دیکھا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنگ سے پہلے اس ہسپتال میں 160 بستروں کی گنجائش تھی۔ اب وہاں تقریباً 800 مریض ہیں، لیکن ہسپتال کے عملے کے 120 ارکان میں سےبہت سے اب کام پر آنے کے قابل نہیں ہیں۔

ابو قاسم نے بتایا کہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو بھی غزہ کے دوسرے لوگوں کی طرح اپنے خاندانوں کے لیے کھانا تلاش کرنے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش میں ہر روز جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے کارکن اپنے بچوں کو قریب رکھنے کے لیے اپنے ساتھ ہسپتال لے کر آتے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ، یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے۔

غزہ میں اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونے والے بچوں کو ایک شخص رفح کے النجار ہسپتال لا رہا ہے ، فوٹو اے ایف پی 24 مارچ 2024
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونے والے بچوں کو ایک شخص رفح کے النجار ہسپتال لا رہا ہے ، فوٹو اے ایف پی 24 مارچ 2024

جنگ کی وجہ سے اپنے گھروں سے نکالے گئے ہزاروں لوگ بھی اس امید پر ہسپتال کے گراؤنڈز میں رہ رہے ہیں کہ وہ ان کے لیے محفوظ ہوں گے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ہسپتالوں کو خصوصی تحفظات حاصل ہیں، اگرچہ انہیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنےکی صورت میں ان تحفظات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

دورہ کرنے والی ٹیم میں شامل اردن کے ایک طبی کارکن مصطفیٰ ابو قاسم نے کہا کہ انہیں مریضوں کی بھیڑ کو دیکھ کر سخت صدمہ پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم مریضوں کو ڈھونڈتے ہیں تو وہاں کمرے نہیں ہوتے۔ "وہ راہداریوں میں کسی بستر پر، گدے پر یا فرش پر کسی کمبل پر ہوتے ہیں۔"

غزہ میں اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونےوالےفلسطینیوں کو الاقصیٰ شہدا اسپتال میں لایا گیا ،فوٹو اے پی، 8 مارچ 2024
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونےوالےفلسطینیوں کو الاقصیٰ شہدا اسپتال میں لایا گیا ،فوٹو اے پی، 8 مارچ 2024

اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ ہسپتال حماس کے لیے کمانڈ سینٹرز، ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے کی سہولیات اور ٹھکانے کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن اس نے بہت کم بصری ثبوت پیش کیے ہیں۔ حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ اسرائیل گزشتہ ایک ہفتے سے غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفا میں بڑے پیمانے پر آپریشن کر رہا ہے۔

اسرائیلی فوجیوں نے الاقصی شہداء پر چھاپہ یا محاصرہ نہیں کیا ہے بلکہ ارد گرد کے علاقوں پر حملہ کیا ہے، بعض اوقات ہسپتال کے قریب بھی حملہ کیا ہے۔ جنوری میں، بہت سے ڈاکٹر، مریض اور بے گھر فلسطینی حملے کے ایک مسلسل سلسلے کے بعد ہسپتال سے فرار ہو گئے تھے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کی بمباری اور جارحیت کے نتیجے میں 32,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور 2.3 ملین افراد کے علاقے میں تقریباً 75,000 زخمی ہوئے ہیں۔ یہ شمار جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق نہیں کرتا، لیکن وزارت کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے تقریباً دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔

جنگ کے ابتدائی مراحل میں، اسرائیل نے غزہ میں خوراک، ایندھن اور طبی سامان کے داخلے کو سختی سے محدود کر دیا تھا۔ جب کہ اب امداد کی ترسیل بڑھ گئی ہے اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ اب ترسیل کی کوئی حد نہیں رہی ہے۔ بین الاقوامی برادری نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید امداد کو غزہ داخلے کی اجازت دے۔

امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ سرحد پر رسد کے معائنہ کے پیچیدہ طریقہ کار، مسلسل لڑائی، اور امن عامہ میں خرابی کی وجہ سے امدادی قافلوں کی آمد کی رفتار سست روی کا شکار ہوئی ہے۔ اسرائیل نے بدنظمی کا الزام اقوام متحدہ پر عائد کیا ہے۔

نتیجہ تباہ کن رہا ہے، ہسپتال کا عملہ طبی آلات کو برقرار رکھنے کے لیے خام پرزوں کی کمیابی کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ الاقصیٰ ہسپتال میں انستھیسیا یعنی بےہوشی کی دوا بھی کم ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ سرجری اور دوسرے علاج اکثر بے ہوش کیے بغیر کئے بغیر کیے جاتے ہیں۔

تانیا حج حسن کہتی ہیں کہ غزہ کے صحت کی دیکھ بھال کے بحران کو ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے۔"انہیں جنگ ختم کرنی چاہئے ۔"

اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG