رسائی کے لنکس

امریکی پرائیویٹ کمپنی کی چاند گاڑی کا زمینی رابطہ ٹوٹنے کا خدشہ


ٹیک کمپنی انٹیوٹیو مشینز کی جانب سے جاری کردہ روبوٹک گاڑی کی تصویر جس کی بیٹری اپنا کام چھوڑ رہی ہے۔ 27 فروری 2024
ٹیک کمپنی انٹیوٹیو مشینز کی جانب سے جاری کردہ روبوٹک گاڑی کی تصویر جس کی بیٹری اپنا کام چھوڑ رہی ہے۔ 27 فروری 2024
  • اوڈیسیس نامی روبوٹک خلائی گاڑی ایک امریکی کمپنی انٹیوٹیو مشینز نے چاند پر بھیجی ہے۔
  • چاند پر گاڑی اترتے وقت زوایہ تبدیل ہونے سے سولر پینلز تک پہنچنے والی سورج کی روشنی محدود ہو گئی ہے اور بیٹری چارج نہیں ہو رہی۔
  • خلائی گاڑی کا زمین سے رابطہ چند گھنٹوں میں ٹوٹ جائے گا۔

سن 1972 کے بعد چاند پر اترنے والے پہلے امریکی خلائی جہاز کی بیٹری تقریباً 10 سے 20 گھنٹوں میں اپنا کام چھوڑ دے گی اور زمینی مرکز سے خلائی جہاز کا رابطہ منقطع ہو جائے گا۔

زمینی مرکز نے کہا ہے کہ روبوٹک خلائی گاڑی کا زمین سے ابھی تک رابطہ برقرار ہے۔

اوڈیسیس نامی روبوٹک خلائی گاڑی ٹیکساس کی ایک ٹیک کمپنی انٹیوٹیو مشینز نے تیار کی ہے جس کے لیے امریکی خلائی ادارے ناسا نے اسے 11 کروڑ 80 لاکھ ڈالر دیے تھے۔

یہ کسی پرائیویٹ امریکی کمپنی کی جانب سے چاند پر بھیجا جانے والا پہلا سائنسی تحقیق کا مشن ہے۔

روبوٹک خلائی گاڑی نے منگل کی صبح سائنسی ڈیٹا اور تصاویر زمینی مرکز کے فلائٹ کنٹرولز کو بھیجا تھا۔

خلائی گاڑی جمعے کے روز چاند پر اتری تھی اور سائنس دانوں کو توقع تھی کہ وہ چاند پر سات سے 10 دن تک کام کرے گی، لیکن توقع کے برعکس اس کی بیٹری تخمینے سے پہلے ہی اپنا کام چھوڑ رہی ہے۔ تاہم کمپنی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ روبوٹک گاڑی کی بیٹری کی باقی ماندہ زندگی کے حتمی تعین کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ماہرین یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بیٹری میں برقی رو ختم ہونے کی وجہ سے کتنا سائنسی ڈیٹا زمین پر منتقل ہونے سے رہ جائے گا۔

اس روبوٹک گاڑی کا نام نووا سی کلاس لینڈر ہے اور اسے 15 فروری کو ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے ایلون مسک کی اسپس ایکس کمپنی کے راکٹ فالکن نائین کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ یہ گاڑی چھ دن کے بعد چاند کے مدار میں پہنچی اور پھر ایک روز کے بعد 22 فروری کو چاند کی سطح پر اتر گئی۔

روبوٹک گاڑی سے ابتدائی طور پر وصول ہونے والے سگنلز کمزور تھے جو یہ ظاہر کرتے تھے کہ خلائی گاڑی کے ساتھ کچھ غلط ہو چکا ہے۔

خلائی گاڑی کی چھ ٹانگیں ہیں جس کی مدد سے وہ چاند کی سطح پر کھڑی ہو کر سائنسی تجربات کر سکتی تھی۔ لیکن اترتے وقت اس کا زوایہ غلط ہونے سے وہ ایک طرف جھک گئی اور بیٹری چارج کرنے والے سولر پینلز تک پہنچنے والی سورج کی روشنی محدود ہو گئی جس کا اثر بیٹری کی کارگردگی پر پڑا۔

کمپنی کے انجنیئرر کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی سے محرومی کے بعد خلائی گاڑی کی بیٹری چند گھنٹوں میں مردہ ہو جائے گی اور اس میں نصب برقی آلات اپنا کام چھوڑ دیں گے۔

ایسی ہی صورت حال کا سامنا جاپان کی خلائی ایجنسی جاکسا کی طرف سے چاند پر بھیجی جانے والی گاڑی کو بھی کرنا پڑا۔

جاپان کی چاند گاڑی جنوری میں چاند کی سطح پر اتری تھی لیکن زوایہ تبدیل ہونے سے اس کے شمسی پینلز کا رخ درست طور پر سورج کی طرف نہ رہا اور بیٹری کا چارج ختم ہونے کے بعد اس کا زمین سے رابطہ ٹوٹ گیا۔

لیکن تقریباً ایک ماہ بعد جاپان کی گاڑی کے آلات نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے اور اس کا زمین سے رابطہ بحال ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ شمسی پینلز کو کسی زوایے سے سورج کی روشنی ملنی شروع ہو گئی ہے۔

امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی چاند کے لیے اپنی مہمات دوبارہ شروع کر رہا ہے۔جس کا مقصد طویل عرصے کے بعد چاند پر ایک بار پھر انسان کو اتارنا ہے۔ لیکن اس بار چاند حتمی منزل نہیں ہے بلکہ خلائی تحقیق کے سفر میں راستے کا ایک پڑاؤ ہو گا۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)

فورم

XS
SM
MD
LG