رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: نو مئی واقعات میں ملوث افراد کے فوجی عدالتوں میں محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • سپریم کورٹ نے نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے فوجی عدالتوں میں محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دی ہے۔
  • اٹارنی جنرل کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں جن کی رہائی کے لیے تین مراحل سے گزرنا ہو گا۔
  • جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوشش کریں عید سے تین چار دن پہلے انہیں چھوڑ دیں۔

سپریم کورٹ نے نو مئی واقعات میں ملوث افراد کے فوجی عدالتوں میں محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق 20 کے قریب افراد ایسے ہیں جن کی عید سے قبل رہائی کا امکان ہے۔

سپریم کورٹ میں ،فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات کی سماعت کے خلاف فیصلے پر انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت جمعرات کو ہوئی۔

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے بتایا کہ 20 افراد ایسے ہیں جن کی عید سے قبل رہائی ہو سکتی ہے۔ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دے دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں جن کی رہائی کے لیے تین مراحل سے گزرنا ہوگا۔

ان کے بقول پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا ہے۔ دوسرا اس کی توثیق ہو گی اور تیسرا مرحلہ کم سزا والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت ملنا ہوگی۔

اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی اجازت دینے کی استدعا کی۔

اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر اجازت دی بھی تو اپیلوں کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جب تک فوجی عدالتوں سے فیصلے نہیں آ جاتے نام نہیں بتا سکتا۔

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کم سزا والوں کو قانونی رعایتیں دی جائیں گی۔ فیصلے سنانے کی اجازت اپیلوں پر حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی۔

خیبر پختونخوا حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی استدعا بھی منظور

سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی استدعا بھی منظور کر لی۔

خیبر پختونخوا حکومت نے سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کےخلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کی تھی۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے تین سال سے کم سزا پانے والوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے عدالت سے کہا کہ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ باہر نکلیں اور تھری ایم پی او کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیے جائیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوشش کریں عید سے تین چار دن پہلے انہیں چھوڑ دیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ٹھیک ہے ہم کوشش کریں گے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو عمل درآمد رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

نو مئی کے ملزمان کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری

سپریم کورٹ نے جہاں ایک طرف نو مئی کے کم سزا والے ملزمان کے فیصلے سنا کر انہیں رہا کرنے کا کہا ہے وہیں دوسری جانب نو مئی کو حساس ادارے کے دفتر پر حملے کے ملزمان کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ملزمان پر الزامات عمومی نوعیت کے ہیں۔ خوش قسمتی سے توڑ پھوڑ کے واقعات میں کوئی زخمی ہوا، نہ ہی ملزمان سے کوئی اسلحہ بر آمد ہو سکا۔ توڑ پھوڑ میں ملزمان کا کردار مزید تحقیق طلب ہے۔ ٹرائل کورٹ شواہد ریکارڈ کرکے ہی ملزمان کی ذمہ داری کا تعین کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں ایسے شواہد نہیں کہ ملزمان کو غیر معینہ مدت تک تحویل میں رکھا جا سکے۔ درخواست گزار ملزمان پہلے ہی گزشتہ سال 10 مئی سے گرفتار ہیں۔ تمام پانچ ملزمان کی 50، 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی جاتی ہے۔ ملزمان کسی اور مقدمہ میں مطلوب نہیں تو رہا کیا جائے۔

سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں کیس ہے کیا؟

پاکستان میں نو مئی 2023 کے بعد ملک بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے الزام میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے بیش تر افراد کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے تھا۔

ان کارکنوں کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ سویلین افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔

بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں اکتوبر 2023 میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا۔

اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کر دیا اور بعدازاں چھ ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا۔

انٹرا کورٹ اپیل پر 29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت میں جسٹس سردار طارق مسعود نے انہیں تین ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دیا تا کہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔

سابق چیف جسٹس کی اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست

رواں ماہ 22 مارچ کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 20 مارچ کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔

سابق چیف جسٹس کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا۔

درخواست گزار نے مطالبہ کیا کہ ترجیحی بنیادوں پر 25 مارچ تک کیس کی سماعت کی جائے کیوں کہ شہریوں کے مسلسل فوجی حراست میں رہنے سے نا قابلِ تلافی نقصان ہو گا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اُن درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال نو مئی کو پر تشدد مظاہروں کے الزام میں گرفتار کیے گئے شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG